حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رائٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شام کی جیلیں اور حراستی مراکز دوبارہ ہزاروں گرفتار شدہ افراد سے بھر چکے ہیں، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ متعدد جیلیں جو سابق حکومت کے سقوط کے بعد بند کر دی گئی تھیں، گزشتہ ایک سال کے دوران دوبارہ فعال ہو چکی ہیں، حالانکہ عبوری حکومت کے سربراہ ابو محمد الجولانی المعروف "الشرع" نے بدنام زمانہ جیلوں کی بندش اور من مانی گرفتاریوں کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم مختلف ذرائع کے مطابق زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ یہ وعدے مکمل طور پر وفا نہیں ہو سکے۔
رپورٹ کے مطابق، جنگ کے بعد کے شام میں ایک بار پھر گرفتاریوں کے مناظر پوری شدت کے ساتھ واپس آ چکے ہیں۔ مسلسل گرفتاریاں مختلف طبقات، علاقوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے شامی شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں، جہاں سکیورٹی کو جواز بنایا جا رہا ہے اور الزامات پہلے سے تیار نظر آتے ہیں۔
اگرچہ سابق اور موجودہ نظام کے سیاسی پس منظر میں فرق ہے، لیکن نتیجہ ایک ہی دکھائی دیتا ہے: حراستی مراکز میں شدید گنجائش سے زیادہ بھیڑ، واضح الزامات کے بغیر طویل حراست، اور شفاف قانونی طریقۂ کار کا فقدان۔
دوسری جانب دمشق کی حکومت موجودہ سکیورٹی صورتِ حال کا دفاع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کرتی ہے کہ یہ گرفتاریاں ان افراد کے خلاف کارروائی کا حصہ ہیں جو جرائم اور خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں، اور یہ کہ ملک اس وقت ایک عبوری مرحلے سے گزر رہا ہے، جس میں سکیورٹی اور عدالتی اداروں کی ازسرِنو تعمیر ناگزیر ہے۔
تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ اجتماعی گرفتاریاں اور شفافیت کا فقدان ایک بار پھر خوف کی فضا کو زندہ کر رہا ہے اور اس نئے مرحلے کے آغاز پر کیے گئے وعدوں پر عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔
اصلاحات کے دعوؤں اور قیدیوں سے بھری جیلوں کی زمینی حقیقت کے درمیان، زیرِ حراست افراد کا یہ مسئلہ درحقیقت شام کے نئے نظام کے لیے ایک فیصلہ کن امتحان بن چکا ہے؛ ایسا امتحان جو طے کرے گا کہ آیا نیا شام واقعی ایک قانون پر مبنی ریاست تعمیر کر پائے گا یا پھر جیلیں ہی اقتدار کی علامت بنی رہیں گی۔









آپ کا تبصرہ